یونیورسٹی کا ایک پروفیسر صبح کے وقت اس کے کھوکھے سے چائے پیتا تھا‘ وہ بچے کی محنت پر خوش تھا‘ وہ اسے روز کوئی نہ کوئی نئی بات سکھاتا تھا‘ جہانگیر نے ایک دن پروفیسر سے پوچھا ’’ماسٹر صاحب ! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں‘‘ پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے‘‘
جہانگیر کا اگلا سوال تھا ’’کیسے؟‘‘
پروفیسر نے اپنے بیگ سے چاک نکالا‘ جہانگیر کے کھوکھے کے پاس پہنچا‘ دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں‘
پہلی لکیر پر محنت‘ محنت اور محنت لکھا‘
دوسری لکیر پر ایمانداری‘ ایمانداری اور ایمانداری لکھا
اور تیسری لکیر پر صرف ایک لفظ ہنر (skill) لکھا۔
جہانگیر پروفیسر کو چپ چاپ دیکھتا رہا‘ پروفیسر یہ لکھنے کے بعد جہانگیر کی طرف مڑا اور بولا
ترقی کے تین زینے ہوتے ہیں‘ پہلا زینہ محنت ہے‘ آپ جو بھی ہیں‘ آپ اگر صبح‘ دوپہر اور شام تین اوقات میں محنت کر سکتے ہیں تو آپ تیس فیصد کامیاب ہو جائیں گے‘ آپ کوئی سا بھی کام شروع کر دیں، آپ کی دکان‘ فیکٹری‘ دفتر یا کھوکھا صبح سب سے پہلے کھلنا چاہئے اور رات کو آخر میں بند ہونا چاہئے‘ آپ کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔ پروفیسر نے کہا’’ ہمارے اردگرد موجود نوے فیصد لوگ سست ہیں‘ یہ محنت نہیں کرتے‘ آپ جوں ہی محنت کرتے ہیں آپ نوے فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آ جاتے ہیں‘ آپ ترقی کیلئے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں‘
اگلا مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے‘ ایمانداری چار عادتوں کا پیکج ہے‘ وعدے کی پابندی‘ جھوٹ سے نفرت‘ زبان پر قائم رہنا اوراپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔ آپ محنت کے بعد ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لو‘ وعدہ کرو تو پورا کرو‘ جھوٹ کسی قیمت پر نہ بولو‘ زبان سے اگر ایک بار بات نکل جائے تو آپ اس پر ہمیشہ قائم رہو اور ہمیشہ اپنی غلطی‘ کوتاہی اور خامی کا آگے بڑھ کر اعتراف کرو‘ تم ایماندار ہو جاؤ گے۔ کاروبار میں اس ایمانداری کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے‘ آپ پہلا تیس فیصد محنت سے حاصل کرتے ہیں‘ آپ کو دوسرا پچاس فیصد ایمانداری دیتی ہے
اور پیچھے رہ گیا 20 فیصد تو یہ 20 فیصد ہنر ہوتا ہے‘ آپ کا پروفیشنل ازم‘ آپ کی سکل اور آپ کا ہنر آپ کو باقی 20 فیصد بھی دے دے گا‘ آپ سو فیصد کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔ پروفیسر نے جہانگیر کو بتایا۔ ’’لیکن یہ یاد رکھو ہنر‘ پروفیشنل ازم اور سکل کی شرح صرف 20 فیصد ہے اور یہ 20 فیصد بھی آخر میں آتا ہے‘ آپ کے پاس اگر ہنر کی کمی ہے تو بھی آپ محنت اور ایمانداری سے 80 فیصد کامیاب ہو سکتے ہیں
لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بے ایمان اور سست ہوں اور آپ صرف ہنر کے زور پر کامیاب ہو جائیں۔
آپ کو محنت ہی سے سٹارٹ لینا ہو گا‘ ایمانداری کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہو گا' آخر میں خود کو ہنر مند ثابت کرنا ہوگا‘‘۔ پروفیسر نے جہانگیر کو بتایا۔ "میں نے دنیا کے بے شمار ہنر مندوں اور فنکاروں کو بھوکے مرتے دیکھا‘ کیوں؟ کیونکہ وہ بے ایمان بھی تھے اور سست بھی' اور میں نے دنیا کے بے شمار بےہنروں کو ذاتی جہاز اڑاتے دیکھا‘-
’تم ان تین لکیروں پر چلنا شروع کر دو‘ تم آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگو گے‘‘۔ جہانگیر نے لمبا سانس لیا اور بولا ’’میں نے چاک سے بنی ان تین لکیروں کو اپنا مذہب بنا لیا اور میں 45 سال کی عمر میں ارب پتی ہو گیا‘‘۔ جہانگیر نے بتایا ‘کھوکھے کی وہ دیوار اور اس دیوار کی وہ تین لکیریں آج بھی میرے دفتر میں میری کرسی کے پیچھے لگی ہیں‘ میں دن میں بیسیوں مرتبہ وہ لکیریں دیکھتا ہوں اور پروفیسر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘‘۔
جہانگیر خاموش ہو گیا‘ سورج نے جھیل میں ڈبکی لگا دی‘ شام رات میں تبدیل ہونے لگی‘ جہانگیر کے گھر سے شام کا منظر بہت خوبصورت تھا‘ گھر کی ساری کھڑکیاں پینٹنگ بن چکی تھیں اور ہر پینٹنگ منہ کھول کر سانس لے رہی تھی‘ جہانگیر کی کامیابی کی تین لکیروں کی طرح ۔۔۔
0 Comments